سورة البقرة - آیت 25

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور خوشخبری (46) دے دیجئے ان ان لوگوں کو جو ایمان (47) لائے اور عمل صالح کیا، کہ ان کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں (48) جاری ہوں گی، جب جب ان باغات میں سے کوئی پھل (49) کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی (پھل) ہے جو ہمیں اس کے قبل کھانے کو دیا گیا تھا اور ان کو ایسی روزی دی جائے گی، جو ایک دوسرے سے متشابہ ہوگی، اور ان کے لئے ان میں پاکیزہ بیویاں (50) ہوں گی، اور وہ لوگ جنتوں (51) میں ہمیشہ ہمیش کے لئے رہیں گے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7: کفار کو تہدید کے بعد اب ترغیب دی جا رہی ہے اور قرآن میں عمو ما یہ دونوں اسلوب ہیں۔ اس اسلوب بیان کی وجہ سے اسے المثانی کہا جاتا ہے ( ابن کثیر) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تصریح سے مقصد یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے عمل صالح بھی ضروری ہے۔ کسی عمل کے صالح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خلوص نیت کے ساتھ ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ سنت کی مخالفت سے نیک عمل بدعت بن جاتا ہے اور عدم خلوص سے نفاق پیدا ہوتا ہے۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں اسلام اور احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ (دیکھئے حاشیہ آیت 112) نفاق اور بدعت سے عمل برباد ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 : دنیا کے میووں کے ہم صورت ہوں گے یا آپس میں ہم شکل ہوں گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے نام تو دنیا والے ہی ہوں گے مگر ان کی حقیقت سے آگاہی ناممکن ہے حدیث میں ہے (مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ)۔ نہ ان کو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا۔ ( ابن کثیر) ف 9 : یعنی جنتی عورتیں ہر قسم کی ظاہر اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف ہوں گی۔ (ابن کثیر) ف 10: یہاں خلود کے معنی ہمیشگی کے ہیں اور یہی اس حققی معنی ہیں۔ (قرطبی)