وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ
اور آپ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیجیے، پس جب انہوں نے اسے ہلتے دیکھا جیسے کوئی سانپ ہو تو پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑے، اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا (اللہ نے کہا) اے موسیٰ ! آپ ڈریے نہی، میرے پاس رسول ڈرا نہیں کرتے ہیں۔
1۔ ” جان“ اصل میں چھوٹے سفید سانپ کو کہتے ہیں۔ سورۃ اعراف (آیت :107) اور سورۃ شعرا۔ (آیت :32) میں اس کے لئے ” ثعبان“ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی بڑے سانپ (اژدہا) کے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سانپ اصل میں بڑا اژدہا رہا تھا لیکن اپنی حرکت کی تیزی میں چھوٹے سانپ جیسا تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ کبھی ” جان“ بن جاتا اور کبھی ” ثعبان“۔ اس لئے ان دو لفظوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، ” اول شک سی بن گئی تھی پتلی جب فرعون کے آگے ڈالی تو ناگ ہوگئی بڑھ کر۔ (موضح) 2۔ یہ خوف طبعی بتضائے بشریت تھا۔ (قرطبی) 3۔ یعنی میرے حضور پہنچ کر انبیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، سانپ وغیرہ کسی چیز سے نہیں ڈرا کرتے کیونکہ یہاں تو وہ اخذ وحی میں بالکل مستغرق ہوتے ہیں اور کسی طرف التفات نہیں رہتا۔ (شوکانی)