الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
جس نے زمین کو تمہارے لئے فرش (42) اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا جس کے ذریعہ اس نے مختلف قسم کے پھل نکالے، تمہارے لئے روزی کے طور پر، پس تم اللہ کا شریک (43) اور مقابل نہ ٹھہراؤ، حالانکہ تم جانتے ہو (کہ اس کا کوئی مقابل نہیں)
ف 1: ’’ السَّمَاءَ‘‘ سے مراد اس جگہ بادل ہے۔ (ابن کثیر ) ف2: ’’ أَنْدَادًا‘‘ کا واحد ’’نِد‘‘ ہے جس کے معنی ہمسر اور شریک کے ہیں یعنی جب تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور نفع ونقصان بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہے تو پھر دوسروکواس کا ہمسر کیوں سمجھتے ہو شرک کے بہت سے شعبے ہیں اور آنحضرت نے اس کا سد باب کرنے کے لیے ہر ایسے قول و فعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے آنحضرت (ﷺ) سے کہا(مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ)اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا ؛(أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا) کہ تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرا دیا ( نسائی، ابن ماجہ) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے شرک بہت خفی ہے، ایک شخص کسی کی جان کی قسم کھاتا ہے یا یہ کہتا ہے کہ فلاں بطخ نہ ہوتی تو گھر میں چور آجاتے وغیرہ کلمات بھی ایک طرح سے’’ ند‘‘ کے تحت آجاتے ہیں۔ (ابن کثیر )