وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جو لوگ ہماری ملاقات کا یقین (٩) نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں بھیج دیئے گئے (جو محمد کی نبوت کی گواہی دیتے) یا ہم اپنے رب کو کیوں نہیں دیکھ لیتے ہیں، انہوں نے اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا ہے اور بڑی سرکشی پر تل گئے ہیں۔
1۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے :… او تاتی باللہ والملائکۃ قبیلا… یا تم اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہ لے آئو۔ (اسرا :92) دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح پیغمبروں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی فرشتے کیوں نہیں آتے؟ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : قالا لن نومن حتی …مثل ما اولی رسل اللہ۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسی ہی چیز (یعنی رسالت) نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ دیکھئے سورۃ انعام آیت 124۔ (ابن کثیر) 2۔ یعنی یہ اپنی دانست میں اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے۔ اس لئے ان میں اتباع حق سے بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ یا یہ کہ ” استکبار“ یعنی کفر و عناد اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔3۔ ” سرکشی میں حد سے گزر گئے۔“ یعنی پیغمبر کی تکذیب کی اور ایسی باتوں کا مطالبہ کیا جو اولوالعزم پیغمبروں میں کسی کو ہی حاصل ہو سکتی ہیں پھر اس سے بڑھ کر اور کیا سرکشی ہوگی۔