سورة النور - آیت 39

وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کافروں کے اعمال کسی چٹیل میدان میں سراب (چمکتا ہوا ریت) کے مانند ہیں، جسے پیاسا پانی سمجھتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں پاتا، اور وہاں اللہ کو پاتا ہے جو اس کے اعمال کا پورا حساب اسے چکا دیتا ہے، اور اللہ بڑا تیز حساب لینے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

1۔ کفروا اوپر مومنوں کے اعمال کی حالت بیان کی ہے اور اب یہاں کفار کے اعمال کی حالت بیان کی جا رہی ہے لہٰذا یہ ایک قصے کا عطف دوسرے قصہ پر ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ میں منافقین کی دو مثالیں بیان فرمائیں۔ ایک پانی کی اور دوسری آگ کی، اور پھر سورۂ رعد میں اس علم و ہدایت کی آگ اور پانی سے دو مثالیں بیان فرمائیں جو لوگوں کے دلوں میں قرار یاب ہوتا ہے۔ اب یہاں دو قسم کے کفار (ایک لیڈر اور دوسرے ان کے مقلدین) کی دو مثالیں بیان کی جا رہی ہیں ایک سراب اور دوسری ظلمات کی۔ پہلی مثال ان کفار کی ہے جو کفر کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنے اعمال و اعتقادات کو قابل اعتماد سمجھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ آخرت میں ان کی بہتر جزا ملے گی مگر دراصل ان کے اعمال سراب کی طرح بے حقیقت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جہل مرکب میں مبتلا ہیں اور آگے ان لوگوں کی مثال ظلمات سے بیان کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلاہیں اور ائمہ ٔ کفر کی تقلید کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر) یہاں کفارکے اعمال ہی کی دو مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی مثال کا تعلق وجدان سے ہے اور دوسری کا رؤیت سے۔ امام جرجانی (رح) فرماتے ہیں۔ پہلی مثال کفار کے اعمال کی ہے جو اپنے گمان کے مطابق کچھ نیک اعمال، صدقہ و خیرات، خدمت بیت اللہ وغیرہ) کرتے ہیں۔ اس امید پر کہ آگے چل کر یہ ہمارے کام آئیں گے۔ مگر جب آخرت میں پہنچیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان نیکیوں کی کچھ حقیقت نہیں۔ اور دوسری مثال نفس کفر کی ہے۔ پھر ان کفار کے حکم میں وہ فلاسفہ بھی داخل نہیں ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں مگر ان کے عقائد و اعمال شریعت کے منافی ہیں۔ (شوکانی، شرح) واضح رہے کہ کفار کے اعمال کی تمثیل ” لم یجدہ شیئا“ پر تمام ہوجاتی ہے اس کے بعد ووجد انہوں نے بطور تکملہ ان کے بقیہ احوال کا بیان ہے۔ یعنی صرف اسی پر بس نہیں ہے کہ صرف یاس و قسوط اور ناکامی کا سامنا ہوگا بلکہ وہاں محاسبۂ الٰہی سے انہیں ایسی بدحالی سے دوچار ہونا پڑے گا کہ اس کے مقابلے میں یاس و ناکامی کی کچھ حیثیت نہیں رہے گی۔ (روح)