وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
اور جب تم لوگوں نے یہ جھوٹی خبر سنی تو کیوں نہیں کہا، ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں اے ہمارے رب ! تو تمام عیوب سے پاک ہے، یہ تو بہت بڑا بہتا ہے۔
5۔ اس میں ان لوگوں کو تو بیخ کی ہے جو اس واقعہ کو سن کر اس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ مروی ہے کہ حضرت سعد (رض) بن معاذ نے جب حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں قیل و قال کو سنا تو انہوں نے برملا اس کو جھٹلایا اور کہا : ” سبحانک ھذا بھتان عظیم“۔ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے حرم اس قسم کے ملوثات سے بالا ہوتے ہیں۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کی بیوی کی خیانت، خیانت کفر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے باہم دگر معاملات کی بنیاد نیک گمان پر ہونی چاہئے۔ اور کسی سے بدگمانی اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس کے لئے کوئی واقعی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔