إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ
بیشک جن لوگوں نے (عائشہ پر) تہمت لگائی (٦) ہے، وہ تم ہی میں کا ایک چھوٹا گروہ ہے، تم لوگ اس بہتان تراشی کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ اس میں تمہارے لیے خیر ہے، ان میں سے ہر آدمی کو اپنے کیے کے مطابق گناہ ہوگا اور ان میں سے جس نے اس افترا پردازی کی ابتدا کی ہے اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔
5۔ یہاں سے تیسرے رکوع کے آخر تک سولہ آیتیں اس تہمت سے حضرل عائشہ (رض) کی عفت و پاکدامنی ظاہر کرنے کے سلسلہ میں اتاری گئیں جو غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر بعض منافقین نے ان پر لگائی تھی۔ یہ واقعہ حدیث کی مشہور کتابوں میں خود حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے بتفصیل درج ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غزوۂ بنی المصطلق سے واپس ہوتے ہوئے نبیﷺ نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ ابھی رات کا کچھ حصہ باقی تھا کہ کوچ کی تیاری ہونے لگی۔ حضرت عائشہ (رض) رفع حاجت کے لئے چلی گئیں۔ وہاں ان کے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گر پڑا۔ اور وہ اسے تلاش کرنے لگیں۔ اتنے میں قافلہ روانہ ہوگیا اور لوگ بے خبری میں ان کا خالی ہودہ اونٹ پر رکھ کر روانہ ہوگئے۔ جب وہ ہار لے کر پلٹیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ چادر اوڑھ کر ایک جگہ لیٹ گئیں صبح کے وقت ایک صحابی صفوان (رض) بن معطل سلمی (جو بدری تھے اور اس لئے پیچھے رہ گئے تھے کہ صبح کے بعد قافلہ کے پڑائو کی جگہ دیکھ بھال کر آئیں) وہاں سے گزرے۔ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کو پہچان لیا کیونکہ نزول حجاب سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا۔ ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے : ” انا للہ وانا الیہ راجعون“ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کی بیوی یہاں رہ گئیں، پھر انہیں اونٹ پر سوار کیا اور خود نکیل پکڑ کر آگے آگے چلنے لگے یہاں تک کہ دوپہر تک قافلہ کو جا لیا۔ منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی کو معلوم ہوا تو اس نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی اور اس کا چرچا کرنے لگا۔ ہوتے ہوتے بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس افواہ کے پھیلانے والوں میں شریک ہوگئے۔ نبیﷺ خاصے دنوں تک پریشان و متفکر رہے اور خود حضرت عائشہ (رض) کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت و پاکیزگی ظاہر کرنے کیلئے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (ابن کثیر) 6۔ روایات میں جن لوگوں کے نام ملتے ہیں وہ یہ ہیں :” عبد اللہ بن ابی، زید بن رفاعہ، سطح (رض) بن اثاثہ، حسان (رح) بن ثابت (مشہور شاعر) حمنہ (رض) بنت حجش (ام المومنین حضرت زینب (رض) کی بہن) اور بعض دوسرے ان میں سے پہلے دو منافق تھے اور باقی مسلمان (ابن کثیر ) 7۔ یعنی گھبرائو نہیں اس میں تمہارے لئے خیر کے بہت سے پہلو ہیں۔ 8۔ مراد ہے عبد اللہ بن ابی قبحہ اللہ و لعنہٗ۔ (ابن کثیر۔ شوکانی)