وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور اگر ہم ان پر رحم (٢٢) کریں اور انہیں جو تکلیف و پریشانی لاحق ہے اسے دور کردیں تو وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہنے پر اور اصرار کرنے لگیں۔
3۔ اور قرآن بھی ان کے فہم میں اتار دیں۔ یہاں ” ضر“ سے مراد ہے اس قحط کی تکلیف جس میں قریش آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مبتلا ہوئے تھے۔ اس قحط کا متعدد روایات میں ذکر آیا ہے صحیحین میں ہے کہ جب قریش کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو نبیﷺ نے ان کے حق میں بددعا فرمائی : اللھم اعنی علیھم بسبع کسبع یوسف۔ اے اللہ ! میری ان کے مقابلہ میں ایسے ہفت سالہ قحط سے مدد فرما۔ جیسا قحط یوسف ( علیہ السلام) کے زمانہ میں پڑا تھا۔ (شوکانی) 4۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے جو مصیبت ٹلتی ہے اپنے ہی حسن انتظام سے ٹلتی ہے۔ خدا کا اس کے ٹالنے میں کوئی احسان نہیں ہے۔ (وحیدی)