قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ
ہماری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھی تو تم اپنی ایڑیوں کے بل بھاگ پڑتے تھے۔
5۔ اب یہاں پر ان کا سب سے بڑا گناہ بیان کیا ہے (ابن کثیر) یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ ” بہ“ کی ضمیر قرآن یا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قرار دی جائے اور ” ھجر“ کے معنی بکواس کرنا اور ” سامرا“ کے معنی گپ شپ کرنے والے لوگ (جمع) لئے جائیں اور اگر ” سامرا“ کے معنی افسانہ گو (واحد) اور ” ھجر“ کے معنی چھوڑنا کئے جائیں (جیسا کہ شاہ عبد القادر (رح) نے لئے ہیں) تو ترجمہ یوں ہوگا۔ ” تو تم اس (پیغمبر) سے (یا حرم کی مج اوری پر) اکڑ کر ایک افسانہ گو کو چھوڑتے ہوئے اپنی ایڑیوں کے بل الٹے بھاگتے تھے“۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” قریش کی عادت تھی کہ رات کے وقت خانہ کعبہ کے پاس حلقے بنا کر بیٹھتے اور قرآن اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بیہودہ بکواس کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر، کاہن وغیرہ کہتے۔ اس لئے جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے لوگوں کو رات کے وقت ہر قسم کی گپ بازی سے منع فرما دیا۔ (مختصر از شوکانی و قرطبی)