أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں، اس میں اس کے لئے ہر قسم کے پھل ہوں، اور اس کا بڑھاپا آجائے، اور اس کے کمزور و ناتواں بچے ہوں، اور اچانک وہ باغ ایک بگولے کی زد میں آجائے جس میں آگ ہو جو اسے جلا دے، اللہ اسی طرح تمہارے لئے آیتوں کو بیان کرتا ہے، تاکہ تم غور کرو۔
ف 1 یعنی نہ خود اس میں اتنی طاقت کہ باغ دوبارہ لگا سکے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے اسی طرح منافق صدقہ وخیرات کرتا ہے مگر ریاکاری سے کام لیتا ہے تو قیامت کے دن جو نہایت احتیاج کا وقت ہوگا اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا۔ اور اس وقت ثواب حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نیکی کا وقت بھی نہیں ہوگا صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے اس کی ایک دوسری تفسیر منقول ہے جسے حضرت عمر (رض) نےبھی پسند فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ مثال اس شخص کی ہے جو عمر بھر نیک عمل کر تارہتا ہے لیکن آخر عمر میں اس کی سیرت بدل جاتی ہے اور نیک عمل کی بجائے برے عمل کرنے لگتا ہے اس طرح وہ اپنی پہلی نیکیاں بھی بر باد کرلیتا ہے اور قیامت کے دن جو کہ بہت تنگی کا وقت ہوگا وہ نیکی اس کے کچھ کام نہ آئے گی اور اس نازک وقت میں اس کا عمل اس سے خیانت کرے گا۔ (ابن کثیر) چنانچہ آنحضرت (ﷺ) ایسے شخص کی حالت سے پناہ مانگا کرتے تھے ایک دعا میں ہے(اَللَّھُمَ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِکَ عَلَیَّ عِنْدَ کِبَرِ سِنِّی وَ انْقِطَاعِ عُمُرِی )۔ کہ یا اللہ بڑھاپے کی عمر میں مجھ پر اپنا رزق وسیع فرمادے۔ (مستدرک)