الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔
2۔ ” خشوع“ کے لفظی معنی ہیں کسی کے سامنے ڈر کر جھک جانے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کے اس کا تعلق دل سے بھی ہے اور ظاہری اعضائے بدن سے بھی۔ لہٰذا نماز میں خشوع اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل پر خوف و ہیبت طاری ہو اور اس کے اعضا میں سکون ہو۔ وہ نگاہ ادھر ادھر پھیرے نہ کپڑے یا داڑھی وغیرہ کھیلے اور نہ انگلیاں چٹخائے۔ کیونکہ ادھر ادھر دیکھنے کو شیطان کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز کی حالت میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضا پر بھی اثر ہوتا۔ یہ خشوع نماز کی اصل روح ہے اس لئے بہت سے علماً نے اسے فرض قرار دیا ہے یعنی اگر یہ نماز میں نہ ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔ ابن سیرین (رح) فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز میں اپنے سر اور نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا کرتے تھے اور دائیں بائیں رخ کرلیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ایسا کرنے سے باز آگئے۔ (ابن جریر) عبد الواحد بن زید نے اس پر بھی علما کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ آدمی کی نماز وہی قبول ہوتی ہے جسے وہ سمجھ کر پڑھے نیز دیکھئے بقرہ :45، شوکانی)