وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی آیتوں کی تلاوت (٣٦) کی جاتی ہے تو آپ کافروں کے چہروں پر ناپسندیدگی کے آثار پہچان لیتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ وہ ان پر چڑھ کر بیٹھیں گے جو ان کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کیا میں تمہیں ان آیتوں سے بھی زیادہ تکلیف دینے والی چیز کی خبر دوں وہ ہے جہنم کی آگ، جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہوگا۔
6۔ یعنی غصہ سے ایسی شکل بناتے ہیں گویا ابھی کاٹ کھائیں گے۔ قاضی شوکانی (رح) لکھتے ہیں : ” یہی کیفیت اہل بدعت کی ہوتی ہے جب انہیں قرآن کی کوئی ایسی آیت یا نبیﷺ کی کوئی ایسی صحیح حدیث سنائی جاتی ہے جو ان کے باطل عقائد کی تردید کرتی ہو۔ (فتح القدیر) 7۔ یعنی کلام الٰہی کی آیات سن کر تم میں غصہ کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے یا ان آیات کے سنانے والوں کے ساتھ جو برے سے برا سلوک تم کرسکتے ہو کیا میں تمہیں اس سے بھی بری چیز نہ بتائوں جس سے تمہیں سابقہ پڑنے والا ہے؟ (شوکانی)