وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور یاد کرو جب ابراہیم نے کہا کہ اے مریے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں (360) کو کس طرح زندہ کرتا ہے؟ اللہ نے کہا کہ تم اس پر ایمان نہیں رکھتے، ابراہیم نے کہا، ہاں، اے میرے رب ! لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرا دل مطمئن ہوجائے، اللہ نے کہا، چار پرندے لے کر انہیں اپنے آپ سے مانوس بنا لو، پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر ڈال دو، پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے، اور جان لو کہ اللہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے
ف 6 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور حکم ان کے پاس آتے رہتے تھے ان کو مردوں کے جی آٹھنے میں کوئی شک نہ تھا لیکن آنکھ سے دیکھ لیا چاہنا انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد عینی مشاہدہ چاہتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (وحیدی۔ ابن کثیر) ف 3 فصرھن کے معنی عموما املھن کئے گئے ہیں یعنی ان کو ہلالے شاہ صاحب اپنے فائدے میں لکھتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہلانے کو اس لیے فرمایا گیا تاکہ زندہ ہونے کے بعد وہ خوب پہچانے جا سکیں کہ واقعی وہی ہیں جو ذبح کر کے پہاڑ پر رکھے گئے تھے اور کوئی اشتباہ نہ رہے اس صورت میں ثم اجعل سے پہلے قطعھن مخذوف ماننا پڑے گا اور کہا جائے گا بعد کا جملہ چونکہ اس پر دلالت کررہا ہے اس لیے اسے حذف کردیا گیا ہے۔ (معالم صحابہ وتابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے صرھن کے معنی قطھن بھی بتائے ہیں یعنی ان کو پارہ پارہ کردے چنانچہ ابن جیریر طبری نے اس معنی پر بہت سے شواہد پیش کئے ہیں اصل میں یہ لفظ صار یصور یصیر سے امر کا صیغہ ہے جس کے معنی قطع کرنا بھی آئے ہیں اور مائل کرنا بھی اور اس میں قرات کے اختلاف نے اور زیادہ استباہ اور وسعت پیدا کردی اور علمائے لغت نے اسے اضداد میں ذکر کیا ہے۔ (اضداد ابی الطیب مجا زابی عبیدہ) اس جگہ سوال وجواب کے انداز اور سیاق کلام سے قطع کے معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اور اس پر سلف مفسرین بھی تقریبا متفق نظر آتے ہیں واللہ اعلم۔ ان چار جانوروں کی تعین میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے بعض نے مور۔ مرغ۔ کوا اور کبوتر بتائے ہیں اور بعض نے دوسرے نام ذکر کیے ہیں اور پھر چار پہاڑوں پر ان کو الگ الگ رکھنے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر ہر ایک کا نام لے کر پکارنے کی کیفیت بھی بعض تابعین سے منقول ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں جانوروں کی یہ تعین لاطائل اور بے فائدہ ہے اس کی کچھ اہمیت ہوتی تو قرآن خاموش نہ رہتا (ترجمان نواب) تاہم ان جانوروں کے ذبح اور زندہ ہونے کی اجمالی کیفیت پر علمائے سلف کا اجماع ہے۔ (کبیر) اس اجماعی تفسیر کے خلاف سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی معتزلی نے اپنی ذاتی رائے سے اس کانیا مطلب بیان کیا ہے جسے آجکل کے جدت پسند طبقہ نے عمدا اختیار کیا ہے یعنی یہ کہ فھر ھن سے صرف ان جانوروں کو ہلا لینا مراد ہے کاٹنا اور ان کے اجزا کو بکھیر نامراد نہیں ہے آلوسی زادہ ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ تفسیر اجماعی کے خلا اور ایک قسم کی بکواس ہے۔ ارباب کے نزدیک یہ تفسیر قابل التفا نہیں ہے۔ ظاہر آیت کے خلاف ہونے کے علاوہ ان آثار صحیحہ راجھہ کے بھی خلاف ہے جن سے آیت کے ظاہری معنی کی تائید ہوتی ہے لہذا حق یہ ہے کہ جماعت کی اتباع کی جائے (روح المعانی) ف 4 یعنی اللہ تعالیٰ جمیع ممکنات پر غلبہ اور قدرت حاصلی ہے اور وہ ہر چیز کے انجام اور غایت کو خوب جانتا ہے ( رازی )