أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کیا آپ نے اس شخص (358) کے حال پر غور نہیں کیا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں حجت کی، اس لئے کہ اللہ نے اسے حکومت دے رکھی تھی، جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے، اس نے کہا کہ میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم نے کہا کہ اللہ آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، تو وہ کافر لاجواب ہوگیا، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ف 6 اوپر کی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہل ایمان اصحاب نور ہیں اور اہل کفر اصحاب ظلمت ہیں۔ اب تین قصے بیان کئے جن سے اہل ایمان اور اہل کفر کے احوال پر روشنی پڑتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں پہلے قصہ سے صانع کا اور دوسرے دونوں قصوں سے حشر ونشر کا اثبات مقصود ہے اور کافر ان دونوں (مبد ومعاد) کے منکر ہیں۔( کبیر بتصرف) مفسرین نے اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان لکھا ہے جو اہل (عراق) کا بادشاہ تھا اور صانع کی ہستی کا منکر تھا۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ یہ منا ظرہ وجود با ری تعالیٰ میں تھا کہ اس عالم کا کوئی صانع موجود ہے یا نہیں چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وجود باری تعالیٰ کی یہ دلیل دی کہ دنیا میں انسان سمیت تمام چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر وجود سے عدم میں چلی جاتی ہیں۔ اس سےمعلوم ہوا کہ کوئی فاعل مختار ہستی موجود ہے جس کے تصرف سے یہ سب کچھ ہورہا ہے کیونکہ جہاں میں وجودو فنا کا یہ سلسلہ از خود قائم نہیں ہوسکتا۔ نمرود نے دلیل کو سمجھ لینے کے باوجود ہٹ دھرمی اور ضد سے کام لیا اور جواب دیا کہ میں بھی یہ سب کچھ کرسکتا ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی ضد اور ہٹ دھرمی بھانپ کر دوسری دلیل پیش کی کہ اللہ تعالیٰ تو رسورج کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جارہا ہے اگر تم اسكے باوجود منکر اور خود خدائی کے دعویدار ہو تو اس نظام شمسی کو ذرابدل کر دکھاؤ یعنی سورج کو مغرب سے مشرق کی طرف لے آؤ۔ اس پر وہ قطعی لاجواب ہو کر رہ گیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے منا ظرہ کی یہ توجیه نہایت بہتر ہے یہاں پہلی دلیل چھوڑ کر دوسری دلیل اختیار نہیں کی بلکہ پہلی دلیل کو دوسری دلیل کے لیے بمنزلہ مقدمہ قرار دے کر نمرود کے دعوی کا کلیتًہ بطلان ظاہر کیا ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ مناظرہ آگ سے خروج کے بعد ہوا تھا اور بعض نے کہا ہے کہ بتوں کو توڑنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ (کبیر )