سورة البقرة - آیت 255

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ کے علاوہ (348) کوئی معبود (349) نہیں، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور تمام کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اسی کی ملکیت (350) ہے، کون ہے جو اس کی جناب میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کے لیے شفاعت (351) کرے، وہ تمام وہ کچھ جانتا ہے (352) جو لوگوں کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے، اور لوگ اس کے علم (353) میں سے کسی بھی چیز کا احاطہ نہیں کرتے ہیں، سوائے اتنی مقدار کے جتنی وہ چاہتا ہے، اس کی کرسی (354) کی وسعت آسمانوں اور زمین کو شامل ہے، اور ان کی حفاظت (355) اس پر بھاری نہیں، وہی بلندی اور عظمت والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 قرآن نے متعدد آیات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قیامت کے دن جو شفاعت فرمائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی جیساکہ حدیث شفاعت میں ہے تحت العرش فاخر ساجدا۔۔ لم یقال لی ارفع راسک وقل تسمع وشفع تشفح کہ میں عرش کے نیچے سجدہ میں گرجاؤں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ سجدہ سے اٹھو جو بات کہو گے سنی جائے گی شفاعت کرو تو قبول کی جائے گی۔ اس آیت سے مطلقا شفاعت کی نفی نہیں کی جیساکہ معتز اہل بدعت کا خیا ہے ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 8 اللہ تعالیٰ کی کر سی کی وسعت کا بیان احادیث میں مذکور ہے یعنی یہ کہ سات آسمان اور زمین کی نسبت کر سی کے کے مقابلہ میں ہی ہے جو جنگل میں پڑے ل ہوئے ایک حلقہ کی ہوتی ہے پس صحیح یہ ہے کہ کہ کر سی کے لفظ کو اس کے ظاہر معنی پر محمول کیا جائے اور تاویل نہ کی جائے کیونکہ یہ آیات صفات اور ان کے ہم معنی احادیث صحیحہ میں سب سے بہتر طریق سلف صالح کا طریق ہے یعنی امر وھا کما جا ءت من غیر تقیید و لا تکبیف۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں کرسی سے علم مراد ہے مشہور محدث علامہ سھیلی فرماتے ہیں سلف اگر یہ تاویل ثآبت بھی ہو تو ان کا مقصد کرسی کی تفسیر علم سے کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کے علم و قدرت کے احاطہ کی طرف اشارہ ہے۔ (الروح ج 2 ص 375) ف 1 اس آیت کو ایتہ الکرسی کہا جاتا ہے متعدد احادیث میں اس کی فضیلت مذکور ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اعظم ایتہ فی کتاب اللہ اور سیدہ ای القرآن وربع القرآن فرمایا ہے۔ رات کو سوتے وقت اسے پڑھنا لینا شیطان سے حفاظت کا ضامن ہے اور ہر نماز کے بعد پڑھنے والے شخص کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں اس کے ساتھ سورت اخلاص کو ملالینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ آیت دس جملوں پر مشمل ہے اور ہر جملہ اسماء حسنی یا صفات باری تعالیٰ کے بیان پر مشتمل ہے یہ خوبی اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔ ایک روایت کی روسے یہ آیت اسم اعظم پر مشتمل ہے ابن کثیر۔ شوکانی )