اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
اللہ کے علاوہ (348) کوئی معبود (349) نہیں، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور تمام کائنات کی تدبیر کرنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اسی کی ملکیت (350) ہے، کون ہے جو اس کی جناب میں بغیر اس کی اجازت کے کسی کے لئے شفاعت (351) کرے، وہ تمام وہ کچھ جانتا ہے (352) جو لوگوں کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے، اور لوگ اس کے علم (353) میں سے کسی بھی چیز کا احاطہ نہیں کرتے ہیں، سوائے اتنی مقدار کے جتنی وہ چاہتا ہے، اس کی کرسی (354) کی وسعت آسمانوں اور زمین کو شامل ہے، اور ان کی حفاظت (355) اس پر بھاری نہیں، وہی بلندی اور عظمت والا ہے
ف 7 قرآن نے متعدد آیات میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص کسی کی شفاعت نہیں کرسکے گا۔ آنحضرت (ﷺ) بھی قیامت کے دن جو شفاعت فرمائیں گے اور آپ (ﷺ) کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد ہی ہوگی جیساکہ حدیث شفاعت میں ہے(فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا۔۔ ثُمَّ يُقَالَ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ)كہ میں عرش کے نیچے سجدہ میں گرجاؤں گا۔ پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ سجدہ سے اٹھو جو بات کہو گے سنی جائے گی شفاعت کرو تو قبول کی جائے گی۔ اس آیت سے مطلقا شفاعت کی نفی نہیں کی جیساکہ معتز له( اہل بدعت )کا خیا ل ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر) ف 8 اللہ تعالیٰ کی ’’کر سی‘‘ کی وسعت کا بیان احادیث میں مذکور ہے یعنی یہ کہ سات آسمان اور زمین کی نسبت کر سی کے مقابلہ میں وه ہی ہے جو جنگل میں پڑے لوهے كے ایک حلقہ کی ہوتی ہے پس صحیح یہ ہے کہ کہ کر سی کے لفظ کو اس کے ظاہر معنی پر محمول کیا جائے اور تاویل نہ کی جائے کیونکہ یہ آیات صفات اور ان کے ہم معنی احادیث صحیحہ میں سب سے بہتر طریق سلف صالح کا طریق ہے یعنی’’ أَمِرُّوهَا كَمَا جَاءَتْ مِنْ غَیرِ تَقْیِید وَ لا تَکْیف۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) حضرت ابن عباس (رض) اور بعض سلف سے منقول ہے کہ یہاں کرسی سے علم مراد ہے مشہور محدث علامہ سھیلی فرماتے ہیں سلف سے اگر یہ تاویل ثابت بھی ہو تو ان کا مقصد کرسی کی تفسیر علم سے کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کے علم و قدرت کے احاطہ کی طرف اشارہ مقصودہے۔ (الروح ج 2 ص 375) ف 1 اس آیت کو ’’آیة الکرسی‘‘ کہا جاتا ہے متعدد احادیث میں اس کی فضیلت مذکور ہے۔ آنحضرت (ﷺ) نے اس کو( أعظمَ آيةٍ في كتابِ اللّهِ اور سیدة ایة القرآن وربع القرآن) فرمایا ہے۔ رات کو سوتے وقت اسے پڑھ لینا شیطان سے حفاظت کا ضامن ہے اور ہر نماز کے بعد پڑھنے والے شخص کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ طبرانی کی ایک روایت میں اس کے ساتھ سورت اخلاص کو ملالینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ آیت دس جملوں پر مشمل ہے اور ہر جملہ اسماء حسنٰی یا صفات باری تعالیٰ کے بیان پر مشتمل ہےیهی خوبی اس کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔ ایک روایت کی روسے یہ آیت اسم اعظم پر مشتمل ہے( ابن کثیر۔ شوکانی )