وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
اور بعض لوگ (٦) اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں، اگر انہیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انہیں آلیتی ہے تو کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں، اور اپنی اور آخڑت دونوں گواں دیتے ہیں، یہی کھلا نقصان ہے۔
ف 9۔ یعنی دین کے اندر نہیں آتا بلکہ کنارے یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے۔ جیسے کوئی لشکر کے کنارے پر رہے۔ اگر فتح ہو تو ساتھ آملے اور شکست ہو تو بھاگ جائے۔ یہ اس کیفیت کا ذکر ہے جو تذبذب اور دلی بے اطمینانی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ آیت ان اعزاب (بادیہ نشین) کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا سے ہجرت کرکے آتے پھر اگر جان و مال میں برکت ہوتی تو اسلام پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتے اور اگر تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوجاتے تو مرتد ہو کر واپس بھاگ جاتے۔ بعض ” مئولفۃ القلوب“ کی بھی یہی کیفیت تھی۔ (کبیر) ف 10۔ یعنی مرتد ہوگیا اور پھر کفرو شرک کی طرف پلٹ گیا۔ ف 1۔ آخرت کا گھاٹا تو ظاہر ہے، رہا دنیا کا خسارہ تو یہ اس لئے کہ ایسے لوگ معاشرے میں بدنام ہوجاتے ہیں اور پھر نفاق اور بزدلی کی وجہ سے اپنے مقاصد میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ شاہ صاحب (رح) کہتے ہیں، دنیا کی نیکی پاوے تو بندگی اور تکلیف پائے چھوڑدے، ادھر دنیا گئی ادھر دین گیا۔ (موضح)