سورة البقرة - آیت 253

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم نے ان رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت (346) دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے بات کی، اور بعض کو اللہ نے کئی گنا اونچا مقام دیا، اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات دئیے، اور روح القدس (جبرئیل) کے ذریعہ ان کی تائید کی، اور اگر اللہ چاہتا تو ان (رسولوں) کے بعد آنے والے لوگ، ان کے پاس کھلی نشانیاں آجانے کے بعد آپس میں جنگ نہ کرتے، لیکن وہ اختلاف میں پڑگئے، تو ان میں سے بعض ایمان لے آئے، اور بعض نے کفر کی راہ اختیار کی، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ آپس میں جنگ نہ کرتے، لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 تلک الرسل سے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جن کا اس سورت میں ذکر آیا ہے۔ یہ عقیدہ کہ انبیاء درجات میں مختلف ہیں اور ان میں جو تفاضل پایا جاتا ہے اور پھر یہ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء سے افضل ہیں اور بالکل صحیح اور امت کا اجماعی عقیدہ ہے۔ رازی نے انہیں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جملہ انبیاء پر فضیلت حاصل ہے اور اس سلسلہ میں شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔ (کبیر) لیکن صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ بھی روایت کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لا تفضلونی علی الانبیاء (کہ مجھے انبیاء پر فضیلت نہ دو) جو بظاہر اس آیت کے معارض ہے علماء نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں، واضح ترین جواب یہ ہے کہ میری فضیلت ایسے انداز سے بیان نہ کرو جس سے دوسرے کسر شان کا پہلو نکلتا ہو۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت سے انبیاء کے مابین تفاضل ثابت ہوتا ہے لیکن حدیث میں مقابلہ کی صورت میں تفاضل سے منع فرمایا ہے یا فضیلت جزوی مراد ہے۔ پس کتاب و سنت میں کوئی تعارض نہیں والحمد للہ علی ذلک۔ ابن کثیر، فتح القدیر) ف 2 جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ صحیح ابن حبان کی ایک حدیث میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا بھی نبی مکلم ہونا ثابت ہے۔ (ابن کثیر، کبیر) ف 3 چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلتہ الاسرا میں بحسب مراتب آسمانوں پر انبیاء کو دیکھا۔ (ابن کثیر ) ف 4 یہاں البینات سے مراد واضح دلائل اور معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے۔ ( دیکھئے آل عمران آیت 49) اور روح القدس سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں۔ (بقرہ آیت 78) ف 5 یعنی انبیاء کے متبعین میں یہ اختلاف اور پھر اس اختلاف کی بنا پر باہم قتال اللہ تعالیٰ کی مشیت و حکمت سے ہے جس کی ہمارے فہم سے بالا تر ہے تقدیر کے متعلق ایک سائل کے جواب میں حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ ایک بھید ہے جو تم سے مخفی رکھا گیا ہے لہذا تم اسے معلوم کرنے کی کو شش نہ کرو۔ فتح البیان) اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ کفر و ایمان میں لوگوں کا اختلاف تو پہلے سے چلا آتا ہے کوئی نبی ایسا نہیں کہ ساری امت اس پر ایمان لے آئی ہو لہذا ان کے انکار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ خاطر نہ ہوں۔ (کبیر )