وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اور ہم نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں لکھ (٣٨) دیا ہے کہ سرزمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔
ف 12۔ ” اذکر“ سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے ” توارۃ“ مراد لی ہے اور بعض نے اسے اس کی لفظی یعنی ” نصیحت“ میں لیا ہے۔ (شوکانی) ف 13۔ یہاں ” الارض“ سے کونسی زمین مراد ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض علما نے بہشت کی زمین مراد لی ہے کیونکہ دوسری آیت میں جنت کے متعلق و اور ثنا الرض فرمایا ہے۔ یعنی جس نے ہمیں زمین یعنی جنت کا وارث بنایا۔ (زمر : 47) گویا یہ اہل ایمان کے حق میں ایک بشارت اخروی ہے جیسے فرمایا ہو العاقبۃ للمتقین۔ (اعراف) مگر اکثر علما نے اسے بشارت دنیوی پر محمول کیا ہے۔ پھر بعض نے کافر قوموں کی سرزمین مراد لی ہے اور بعض نے ” بیت المقدس“ کی فتح۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) کی خلافت میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ نور آیت 55۔ (شوکانی و ابن کثیر)