سورة البقرة - آیت 249

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس جب طالوت اپنی فوج لے کر باہر نکلا (343) تو کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر کے ذریعہ آزمائے گا، تو جو کوئی اس کا پانی پی لے گا، وہ میرا آدمی نہیں ہوگا، اور جو اس کا پانی نہیں چکھے گا، وہ میرا آدمی ہوگا، سوائے اس آدمی کے جو صرف ایک چلو بھر پی لے، تو ان میں سے چند کے علاوہ سب نے پی لیا، جب طالوت اور اس کے ساتھ ایمان والے نہر پار کر گئے تو انہوں نے کہا کہ آج ہم جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں، جنہیں یقین تھا کہ وہ اللہ سے ملیں گے انہوں نے کہا کتنی ہی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 اس نہر سے مراد دریائے اردن ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے جس کی فلسطین میں بہت اہمیت ہے۔ مطلب یہ تھا کہ جو شخص جہاد کی راہ میں بھوک پیاس اور تکالیف برداست کرنے کی ہمت رکھتا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور جو یہ ہمت نہیں رکھتا وہ ابھی سے الگ ہوجائے۔ ف 2 اتنی تعداد جتنی غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تھی۔ یعنی تین سو تیرہ۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے کہ بدر کے روز مسلمانوں کی تعداد اتنی تھی جتنی ان لوگوں کی جنہوں طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) ف 3 بعض نے لکھا ہے کہ یہ کہنے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے نہر پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مضاہرہ کردیا تھا لیکن عبارت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کے یہ بات ام مومنین نے کہی جنہوں نے طالوت کے ساتھ نہر کو پار کیا تھا۔ ممکن ہے انہوں نے جالوت کے لشکر کی کثرت اور اپنی قلت کو دیکھ کریہ کہہ دیا ہو۔