وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور ان سے ان کے نبی نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے (341) کہ وہ ہمارا بادشاہ بن جائے، جبکہ ہم اس سے زیادہ بادشاہت کے حقدار ہیں، اور اس کے پاس مال بھی زیادہ نہیں ہے، نبی نے کہا کہ اللہ نے اسے تمہارے مقابلے میں چن لیا ہے اور علم و جسم میں اسے حظ وافر دیا ہے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے، اور اللہ وسعت و کشادگی والا اور علم والا ہے
ف 2 اس لیے کہ بنی اسرائیل میں نبوت تولادی کی نسل میں چلی آرہی تھی اور بادشاہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہودا کی نسل میں اور طالوت اس نسل سے نہ تھے بلکہ وہ ایک معمولی قسم کے فوجی تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے سرداروں نے اعتراض کیا۔ بائیبل نے طالوت کا نام ساؤل مذکور ہے اور لکھا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بنیامین کی نسل سے تھے اور بنی اسرائیل میں ان جیسا خوبصورت اور قد آور کوئی شخص نہ تھا۔ ف 3 یعنی طالوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یہ علمی قابلیت اور جسمانی صلاحیتوں کی وجہ سے تم پر فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو موروثی طوپر بادشاہی کا حق نہیں ہے اور یہ کہ خلیفہ کا مالدار گھرانے سے ہونا بھی شرط نہیں ہے ہاں علم و فضل کے علاوہ فوجی صلاحتیوں کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا دفاع کرسکے۔