سورة الأنبياء - آیت 47

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کی ترازوئیں قائم کریں گے، پس کسی آدمی پر کچھ بھی ظلم نہیں ہوگا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابربھی کوئی عمل ہوگا تو اسے ہم سامنے لائیں گے اور ہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 9۔ یعنی تمام انسانوں کے اعمال ٹھیک ٹھیک تول کر ان کا بدلہ دیں گے۔ قیامت کے دن اعمال تولنے کے لئے ترازو اگرچہ ایک ہی ہوگی مگر چونکہ اعمال بہت سے ہوں گے ان کی مناسبت سے ” موازین“ بہت سی ترازوئیں جمع کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اکثر مفسرین کا یہی خیال ہے اور اعمال کے تولنے سے مراد صحائف اعمال کا تولنا ہی یا خود اعمال ہی تولے جائیں گے۔ وزن اعمال متعدد احادیث سے ثابت ہے لہٰذا اس سے انکار بے معنی ہے (کبیر) ف 10۔ یعنی نیکیوں میں کچھ کمی آئے گی نہ برائیوں میں کوئی زیادتی ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو انسان گناہ کرکے اپنے آپ پر غلطم کرتا ہے مگر آخرت میں جزائے اعمال کے وقت اس پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ (کبیر) حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے پاس کچھ غلام ہیں جو خیانت کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں اور میں انہیں گالیاں دیتا اور مارتا پیٹتا ہوں میرا (قیامت کے روز) کیا حال ہوگا؟ فرمایا : ” اگر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہے تو تمہیں اجر ملے گا اور اگر اس سے زیادہ ہے تو زیادتی کا بدلہ تم سے لیا جائے گا اور اگر برابر ہے تو نہ اجر ملے گا نہ عذاب“ یہ سن کر وہ شخص رونے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم نے قرآن کی آیت نہیں پڑھی : ” ونضع الموازین … شیئا“ وہ کہنے لگا“ اب میرے اور ان غلاموں کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ مجھ سے جدا ہوجائیں۔ سو میں انہیں آزاد کرتا ہوں۔ (قرطبی بحوالہ ترمذی) ف 11۔ یہ تحذیر ہے کہ ہمارا علم و قدرت ہر چیز پر محیط ہے اور ہم عاجز نہیں ہیں۔ (کبیر)