بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ
بلکہ (ابات یہ ہے کہ) ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو دنیاوی مال و متاع (١٨) سے بہرہ مند کیا، یہاں تک کہ انہوں نے اسی حال میں ایک لمبی عمر گزار لی (تو اپنی حقیقت بھول گئے) کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ ہم ان کی سرزمین کو اس کے کناروں سے کم کرتے جارہے ہیں کیا پھر بھی وہی غالب ہوں گے۔
ف 5۔ یعنی ہم نے جوان پر مہربانی کی اس پر احسان مند ہونے کی بجائے اس غلط فہمی میں پڑگئے کہ یہ ان کے ذاتی کمالات کا کرشمہ ہے اور پھر ہوتے ہوتے اپنی خوشحالی میں اس قدر مست ہوگئے کہ سرے سے بھول ہی گئے کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے۔ وہ جب چاہے ان سے سب کچھ چھین سکتا ہے اور ان کو فاقہ کشی میں مبتلا کرسکتا ہے۔ (شوکانی، کبیر) ف 6۔ یعنی یہ جلدی عذاب مانگنے والے ہمارے قدرت کے آثار پر غور نہیں کرتے اور اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ہر طرف اسلام کو فتح نصیب ہورہی ہے اور کفر کا دائرہ اختیار سکڑتا جارہا ہے۔ مزید دیکھئے سورۃ رعدآیت :14 (کبیر)