سورة الأنبياء - آیت 30

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا اہل کفر نے سوچا نہیں (١٣) کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے، تو ہم نے دونوں کو الگ کردیا، اور ہر ذی روح کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ہے، کیا وہ لوگ (پھر بھی) ایمان نہیں لائیں گے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 9 یعنی دونوں ایک چیز اور ایک ہی طبقہ تھے یا دونوں کے منہ بند تھے۔ چنانچہ نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین میں سے کوئی چیز اگتی تھی (کبیر) ف 10 یعنی زمین کو اپنی جگہ رہنے دیا اور آسمان کو اوپر اٹھا دیا اور درمیان میں ہوا کا نظام قائم کردیا یا دونوں کے منہ کھول دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین میں پیداوار (کبیر) ف 11 یعنی جن چیزوں میں جان سے جیسے حیوانات اور نباتات ان سب کی نشات پانی سے ہے لیکن فرشتے اور جن یا دوسری کوئی چیز جس کے متعلق ثابت ہوجائے کہ اس کے مادہ میں پانی کو دخل نہیں ہے وہ اس سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔ (کبیر) یا سب جاندار چیزوں کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے اور پانی وہ چیز ہے جس کے آسمان سے اترنے اور زمین میں موجود رہنے کے اسباب ہم نے پیدا کئے بعض مفسرین نے پانی سے مراد نطفہ لیا ہے یعنی ہر جاندار (حیوان) کو ہم نے نطفہ سے پیدا کیا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : واللہ خلق کل دآبۃ من مآء اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ (نور 45) ف 12 یعنی زمین آسمان میں یہ حیرت انگیز نظام قائم کرنے والے ہم ہیں کوئی اور نہیں کیا اس پر بھی یہ لوگ توحید کا راستہ اختایر نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو ہمارا شریک سمجھ رہے ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یستبحون تک صانع کے وجود اور اس کی وحدانیت پر چھ قسم کے دلائل مذکور ہیں۔ (کبیر)