فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا
پس بہت ہی عالی شان والا ہے (٤٨) وہ ہے اللہ جو سارے جہاں کا بادشاہ ہے اور آپ قرآن کو یاد کرنے کی جلدی (٤٩) نہ کیجیے، اس سے قبل کہ آپ پر اس کی وحی پوری ہوجائے اور دعا کیجیے کہ میرے رب مجھے اور زیادہ علم دے۔
ف 5 مفسرین کہتے ہیں کہ جب حضرت جبرئیل نبی ﷺ کو قرآن کی متعدد آیات لا کر سناتے تو آپ شدت شوق سے یا اس خیال سے کہ بھول نہ جائیں حضرت جبرئیل کی قرأت مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں بڑھنا شروع کردیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو متنبہ فرمایا کہ ایسا نہ کیجیے بلکہ وحی کو مکمل ہو لینے دیجیے جیسا کہ دوسری جگہ سورۃ القیامتہ 18-16) میں فرمایا : لاتحریک بہ انک التجعل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ” قرآن اترتے وقت اپنی زبان نہ ہلایا کیجیے، اسے جلدی سے یاد کرنے کے لئے (آپ کے دل میں) اس کا جما دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا ذمہ ہے پھر جب ہم (فرشتہ کے ذریعے) آپ کو پڑھا کر سنا چکیں تب آپ پڑھا کیجیے“ اس میں قرآن کی حفاظت اور سہود و نسیان سے اس کے مامون ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے : حضرت شاہ صاحبلکھتے ہیں : اس کو پہلے منع فرمایا تھا سورۃ قیامتہ میں اور تسلی کردی تھی کہ اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں کو پہنچوانا ذمہ ہمارا ہے لیکن بندہ بشر ہے شاید بھول گئے ہوں پھر تفسیر کیا اور بھولنے پر مثل فرمائی آدم کی۔ (موضح) ف 6 علم سے مراد قرآن کا یا دین کا علم ہے اور یہ علم ایسی چیز ہے، جس کے زیادہ سے زیادہ مانگنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کسی اور کی کیا مجال کہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھ سکے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللھم انفغفی ماعلمتن وعلمنی ماینطی وزدنی علما و الحمد اللہ علی کل حال اے اللہ ! جو علم تو نے مجھے دیا ہے اس سے مجھے فائدہ دے اور مجھے وہ علم دے جو میرے لئے فائدہ مند ہو اور میرے علم میں اضافہ کر، اور ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔ (ابن کثیر) حضرت ابن مسعود یہ آیت پڑھتے تو فرماتے : اللہ زدنی ایماناً و تصدیقاً (معالم)