وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور تم میں جو وفات پا جائیں، اور اپنے پیچھے اپنی بیویاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں (335) کہ وہ سال بھر فائدہ اٹھائیں، اور انہیں (شوہر کے گھر سے) نکالا نہ جائے، اگر وہ (خود ہی) نکل جائیں، اور نکاح کے بارے میں مناسب انداز میں کچھ کریں، تو تم پر کوئی گناہ نہیں، اور اللہ زبردست اور بڑا صاحب حکمت ہے
وصیتہ لا زواجھم۔ یعنی جو لوگ وفات پاجائیں ان کی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وصیت کی ہے یا مرنے سے قبل ان کو چاہیے کہ وصیت کر جائیں۔ ای اوھی اللہ وصیتہ اوفلیو صسو اوصیتہ۔) شوکانی) ابتدا میں یہ حکم تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے۔ اسے ایک سال کے لیے شوہر والے مکان میں سکونت پذیر رہنے کے لیے حقوق حاصل ہیں اور اس مدت کے پورے مصارفف متوفی کے اولیاء کے ذمہ ہوں گے۔ ہاں اگر بیوی چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے رخصت ہو سکتی ہے اس صورت میں اولیاء قصوروار نہ ہوں گے اکثر علما کے نزدیک یہ دونوں حکم (نفقہ سنتہ وسکنی) ہی منسوخ ہیں سورت نساء آیت میراث 12 سے ایک سال کے مصارف اروحق سکونت کا وجوب منسوخ ہوگیا اوپر کی آیت 234 میں متوفی عنہا کی دعت چارماہ دس دن اور رسورت طلاق آیت 4 میں حاملہ کی عدت واضح حمل قرار پانے کے بعد ایک سال کی عدت بھی منسوخ ہوگئی۔ اب متوفی عنہا کے لیے لازم ہے کہ آیت 234 کے مطابق شوہر والے مکان میں چا رماہ دس دن عدت گزارے یا اگر حاملہ ہے تو وضح حمل تک اسی مکان میں رہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو سعید خدری کی بہن ذلیعتہ بنت مالک کو اس کے شوہر کی وفات کے بعد حکم دیا تھا کہ امکثی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجلتہ۔ اور بعد میں حضرت عثمان (رض) نے ایک مقدمہ میں اس حدیث کے مطابق فیصلہ بھی فرمایا۔ (ابن کثیر، شوکانی۔ بحوالہ سنن اربعہ ومؤطامالک)