قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا
تو موسیٰ نے کہا (٣٥) تم دور ہوجاؤ اب تم (بخار ابھر جانے کے ڈر سے) زندگی بھر لوگوں سے یہی کہتے رہو گے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے، اور قیامت میں تیرے عذاب کا ایک اور وعدہ ہے جس کی تمہارے ساتھ خلاف ورزی نہیں ہوگی، اور اپنے معبود کو دیکھو (٣٦) جس کی عبادت پر تم جمے رہے تھے، ہم اسے یقینا جلا دیں گے، پھر اس کی راہ دریا میں بکھیر دیں گے۔
ف 12 یعنی یہی نہیں کہ زندگی بھر کے لئے تجھے اپنے معاشرے سے اچھوت بنا کر رکھ دیا گیا بلکہ تیری سزا یہ بھی ہے کہ تو خود لوگوں کو اپنے اچھوت ہونے سے آگاہ کرے اور جہاں سے گزرے یہ کہتا ہوا گزرے دیکھو میں اچھوت ہوں مجھے ہاتھ نہ لگانا۔“ (از شوکانی)