قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
اس نے کہا، میں نے وہ چیز دیکھ لی تھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تھی، تو میں نے جبریل کے پاؤں تلے کی ایک مٹھی مٹی لے لی، پھر اسے بچھڑے کے ڈھانچے میں ڈال دی اور میرے نفس نے مجھے اسی طرح کرنے کو اچھا بتا دیا۔
ف 10 یعنی جبرئیل گھوڑے پر جاتے نظر آئے اور ان میں سے کسی کو دکھائی نہ دیئے۔ ف 11 یعنی ان کے گھوڑے کے پائوں تلے سے آیت کے الفاظ میں اگرچہ اس چیز کی تصریح نہیں ہے کہ ” ٱلرَّسُولِ “ سے سامری کی مراد کون تھے لیکن مفسرین سلف فرماتے ہیں کہ ان کی مراد حضرت جبرئیل سے تھی (کذا فی اروح) بعض (معتزلہ) نے اس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام)لئے ہیں یعنی سامری نے کہا ” میں نے پیغمبر کی کچھ اطاعت اختیار کی تھی مگر اب اس کو چھوڑ دیا ہے۔“ یہ معنی تفسیر بالرای کے مترادف ہے اور سلف کے خلاف ہے۔