إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّكَ مَا يُوحَىٰ
جب ہم نے آپ کی ماں سے بذریعہ الہام (١٥) وہ بات کہی تھی جو کہی جانے والی تھی
ف 1 یہاں بتانے اور بیان کرنے کے لئے ” اوھینا“ (ہم نے وحی بھیجی) اور ” یوحی“ (وحی کیا جاتا ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وحی کے لفظ معنی اشارہ سریعہ یا دل میں کوئی بات ڈال دینے کے ہیں۔ اصطلاح میں جب یہ لفظ کسی نبی کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی فرشتہ کے ذریعے پیغام بھیجنا ہوتے ہیں اور قرآن میں دونوں معنی کے اعتبار سے وحی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کی والدہ کی طرف جو وحی بھیجی گئی وہ بھی لفظی معنی کے اعتبار سے تھی یعنی خواب ہیں یا کسی خفیہ طریقہ سے ان کے دل میں بات ڈال دی گی کیونکہ اس بات پر تقریباً علما کا اتفاق ہے کہ اللہ کے جتنے نبی ہوئے ہیں مردوں میں سے ہوئے ہیں عورتوں میں سے کسی عورت کو نبی نہیں بنایا گیا۔ (سورہ یوسف :109) لہٰذا حضرت موسیٰ کی والدہ نبی نہیں تھیں کہ ان کے لئے وحی کے وہ معنی مراد لئے جائیں جو کسی نبی کے لئے ہوتے ہیں۔ (کبیر)