وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا
اور (ہم) فرشتے آپ کے رب کی مرضی (٤٠) کے بغیر (زمین پر) نہیں اترتے ہیں اسی کے پاس ان تمام باتوں کا علم ہے جو ہمارے آگے ہیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں اور جو ان کے درمیان ہیں اور آپ کا رب (کسی بات کو) بھولنے والا نہیں ہے۔
ف 5 یعنی جب اس کا حکم ہوتا ہے تو زمین پر یا آپ پر وحی لے کر اترتے ہیں اور اس کے حکم کے بغیر نہیں اتر سکتے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) آنحضرت نے حضرت جبریل سے فرمایا آپ ہمارے پاس جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے۔“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کئی روز تک حضرت جبرئیل نہ آئے۔ نبی ﷺ کو بڑی فکر ہوئی۔ اس پر حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد جبریل فرمایا :” آپ ہمارے پاس جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ کئی روز تک حضرت جبریل نہ آئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی فکر ہوئی۔ اس پر حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے مجاہد کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد جب جبریل آئے تو آپ نے فرمایا :” اے جبریل ! آپ نے آنے میں اتنی دیر کیوں کردی؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ (یعنی وحی کا رک جانا) غالباً اس وقت کا واقعہ ہے جب یہود کے اشارے پر مشرکین نے اصحاب کہف روح اور ذی القرنین کے متعلق سوالات کئے تھے آپ نے انشاء اللہ ! نہ کہا چنانچہ کچھ دنوں کے بعد جبریل آئے اور یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر، کبیر) ف 6 یعنی ہر زمانہ (ماضی، حال، استقبال) اور ہر مکان اسی کا ہے اسے ہر چیز کا پورا علم ہے اور اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی۔ ف 7 یعنی اتنے دنوں تک آپ پر جو وحی نہیں آئی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کا رب آپ کو بھول گیا اور اس نے آپ کو چھوڑ دیا تھا۔ جیسا کہ یہ مشرکین باتیں بنا رہے ہیں۔