وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
اور لوگ آپ سے حیض (313) کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ وہ گندا اور نقصان دہ خون ہوتا ہے، اس لیے حالت حیض میں اپنی عورتوں سے الگ رہو، اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں، ان کے قریب نہ جاؤ، پس جب خون سے اچھی طرح پاک ہوجائیں تو ان کے ساتھ اس جگہ جماع کرو جہاں جماع کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
ف 3 حیض کہتے ہیں خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اور عادت کے خلاف جو خون آوے وہ استحاضہ (بیماری) ہے حیض کے دونوں میں عورت سے مجامعت کرنا اور عورت کے لیے نماز روزہ سب حرام ہیں حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یہوں حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے پینے اور گھر میں اس کے ساتھ اختلاط کو جائز نہیں سمجھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تو یہ آیت اتری۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حالت حیض میں جماع کر علاوہ ہر طرح سے عورت کے ساتھ اختلاط جائز ہے اور اس حالت میں الگ رہنے کا مطلب صرف ترک مجامعت ہے۔ ( ابن کثیر بحوالہ مسلم وغیرہ) ف 4 یعنی جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلیں اس پر جمیع علماء کا اتفاق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ اس مسئلہ میں دوسروں سے منفرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر حیض اپنی پوری مدت میں یعنی دس دن پر موقوف ہو تو غسل سے پہلے ہی مجامعت درست ہے مگر یہ قول تطھرون کے خلاف ہے جس معنی اچھی طرح پاک ہوجانا کے ہیں۔ (ابن کثیر۔، ابن العربی) ف 5 یعنی عورت سے اس کی آگے کی جانب شرم گاہ میں مجا معت کرو۔ اس سے ثاتب ہوتا ہے کہ عورت سے غیر فطری مجامعت حرام ہے۔ (ابن کثیر )