سورة الكهف - آیت 94

قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

انہوں نے کہا (٥٨) اے ذوالقرنین ! بیشک یاجوج و ماجوج اس سرزمین پر فساد پھیلاتے ہیں تو کیا ہم تمہارے لیے کوئی معاوضہ مقرر کردیں تاکہ تم ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دو۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یہاں سے ذوالقرنین اور ان لوگوں کی جو گفتگو نقل کی جا رہی ہے وہ غالباً کسی ترجمان کے ذریعے ہوئی ہوگی اور ترجمان کسی درمیانی قوم کا ہوگا جو دونوں کی زبان سمجھتا ہوگا اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ذوالقرنین کو دوسرے اسباب کی طرح یہ توفیق بھی حاصل ہو کہ وہ ان کی زبن سمجھتا ہو۔ ف 2 یاجوج و ماجوج انسانی نسل ہی کی دو قومیں ہیں جیسا کہ ایک حدیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ حضرت آدم سے فرمائے گا، اے آدم اپنی اولاد میں سے جہنم میں جانے والی فوج تیار کرو۔ آدم پوچھیں گے وہ فوج کتین ہے؟ اللہ فرمائے گا۔ ہر ہزار میں سے ایک جنت میں جائے گا … یہ سن کر مسلمان پریشان ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا گھبرائو نہیں ان فیکم امتین ما کاننا فی شء الاکثرتا، یاجوج وماجوج کہ تمہارے اندر دو ایسی قومیں ہیں جو اپنے مقالہ میں آنے والی ہر قوم سے زیادہ ہیں یعنی یاجوج اور ماجوج (ابن کثیر) زیادہ تر مفسرین نے انہیں حضرت نوح کے بیٹے یافث کی نسل سے قرار دیا ہے اور یہی چیز بائیبل کی کتاب پیدائش (باب 10) میں مذکور ہے اور بعض ان کا سلسلہ نسب حضرت آدم سے تو مانتے ہیں مگر ماں کی طرف سے حضرت حوا تک نہیں مانتے۔ مگر یہ کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی نقلی دلیل موجود ہے۔ اس کی ساری بنیاد اہل کتاب کے من گھڑت قصوں پر ہے۔ ان کے احوال و افعال میں مفسرین سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ (ابن کثیر شوکانی) ف 3 یعنی اس گھاٹی کو بند کر دے جس سے گزر کر وہ آئے دن ہمارے ملک پر حملہ کرتے رہتے ہیں اور ہمارے ہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔