سورة الكهف - آیت 9

أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غار (٤) اور رقیم بستی کے رہنے والے ہماری (قدرت کی) نشانیوں میں سے ایک عجیب نشانی تھے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 یعنی ہماری قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کے سامنے ان لوگوں کا قصہ جو آگے آرہا ہے کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر حد سے زیادہ حیرت کا اظہار کیا جائے بلکہ اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ قریش نے یہود کے مشورے سے آنحضرت سے بطور آزمئاش جن اموال کہے۔ روح کیا ہے؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا ہے؟ اور انہوں نے اصحاب کہف کے قصے کو خاص اہمیت دی۔ ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ کہف عربی زبان میں وسیع غار کو کہتے ہیں اور رقم (تختی) سے مراد پتھر یا شیشے کا وہ کتبہ جس پر انہی اصحاب کہف کے نام لکھے تھے بعض قدیم مفسرین نے اس سے مراد وہ بستی لی ہے جہاں یہ قصہ پیش آیا تھا اور جو ایلہ (عقبہ) کے قریب یا نینوی (موصل) کے قریب یا رومیوں کی سر زمین میں واقع تھی اور اس کا نام اقس یا افسوس تھا۔ ان دنوں اردن کے دارالسلطنت عمان سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جس کا نام ” الرقیب“ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک غار پایا جاتا ہے اس بستی کے رہنے والوں کا خیال ہے کہ اصحاب کہف کا قصد یہیں پیش آیا تھا اور اس بستی کا اصل نام الرقیم تھا جو بعد میں بگڑ کر الرقیب ہوگیا مگر یہ کوئی محقق بات نہیں ہے۔ اس زمانہ کے بعض مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ غار ترکی کے شہر از میر (سمرنا) کے قریب واقع تھا۔ واللہ اعلم