سورة البقرة - آیت 203

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور گنتی کے چند دنوں (292) میں اللہ کی یاد میں مشغول رہو، پس جو کوئی دو دن میں جلدی چلا گیا (293) اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جس نے جلدی نہیں کی اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس کے لئے جو متقی ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تم لوگ اسی کے پاس جمع کئے جاؤ گے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ان ایام سے ایام تشریق یعنی 11۔12۔13، ذی الحجہ کے دن مراد ہیں ان ایام میں ذکر الہی یہ ہے کہ رمی کے وقت ہر کنکر کے ساتھ بآواز بلند تکبیر کہی جائے۔ نیر عام اوقات خصوصافرض نماوں کے بعد تکبیرات اور ذکر الہی میں مشغول رہا جائے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اپنے خیمہ میں اور چلتے پھر تے اور نما زوں کے بعد بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے۔، حدیث میں ہے) أيَّامُ التَّشريقِ أيَّامُ أَكْلٍ وشُربٍ وذِكْرٍ للَّهِ ) کہ تشریق کے دن کھا نے پینے اور ذکر الہی کے دن ہیں ۔تکبیر ات کی ابتدا اور انتہا میں گو اختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ عرفہ کے دن صبح کی نماز سے شروع کی جائیں اور تشریق کے آخری دن یعنی 13 تاریخ کی نماز عصرتک تیئس نمازوں کے بعد کہی جاتیں۔ یہی مسلک اکا بر صحابہ کا ہے اور حدیث سے بھی مرفوعا ثابت ہے اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں اللہ اکبر (تین مرتبہ) کہ کر پھر کہے لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ، ‌وَاللَّهُ ‌أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ (اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے کے لیے تعریف ہے۔ (فتح البیان، رازی) نیز دیکھئے سورت الحج آیت 28) ف 3 : یعنی گیا رہ اور بارہ کو دو دن میں رمی حجار بھی جائز ہے اور اگر تا خیر کرے یعنی پورے تین دن منٰی میں ٹھہر ارہے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ انسان کے دل میں تقوی ہو اور جملہ مناسک حج خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر )