وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ بیشک آپ کا رب تمام لوگوں کو اپنے گھیرے (٣٩) میں لیے ہوئے ہے اور ہم نے جو مشاہدات (شب معراج میں) آپ کو کرائے انہیں ہم نے لوگوں کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا تھا اور اس (زقوم کے) درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت بھیجی گئی ہے، اور ہم کفار مکہ کو ڈراتے ہیں لیکن یہ چیز ان کی سرکشی کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔
ف 7 لوگوں سے مراد کفار مکہ ہیں اور ان کا احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنا پورا زور لگانے کے باوجود محمد ﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ آپ کی دعوت کو پھیلنے سے روک سکے۔ اس سے مقصود آنحضرت کو حوصلہ دلانا ہے کہ آپ بے خطر اپنی دعوت پیش کرتے رہئے ان لوگوں کی مخالفت کی کوئی پروا نہ کیجیے۔ یہ آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ف 8 کہ کون اسے سچا مان کر اپنے ایمان کا ثبوت دیتا ہے اور کون سا یجھٹلا کر کفر کی دلدل میں پڑا رہتا ہے یا کفر کی طرف پلٹ جاتا ہے۔ مراد معراج کا واقعہ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ جب نبی ﷺ نے واپسی کے عبد اسے لوگوں سے بیان فرمایا تو قریش نے اس کی سخت تکذیب کی اور آپ کا حد سے زیادہ مذاق اڑایا بلکہ خود مسلمانوں میں سے بعض ل وگ اسلام سے پھر گئے۔ ” رئویا“ کا لفظ خواب کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگر یہاں اس سے مراد ” آنکھ کا دکھاوا“ ہے کیونکہ اگر یہ محض خواب ہوتا تو لوگوں کے امتحان کی یہ صورت پیدا نہ ہو سکتی تھی حضرت ابن عباس اور دوسرے اکثر مفسرین نے اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ (ابن کثیر و شوکانی) ف 9 اسے بھی لوگوں کے لئے آزمائش بنایا۔ مراد زقوم کا درخت ہے یعنی تھوہر یا ناگ پھنی (دیکھیے سورۃ خان 43) اور اس پر لعنت ہے مراد اس کے کھانے والے پر لعنت ہے اور آزمائش یہ ہے کہ جب نبی ﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ آپ نے جنت اور دوزخ دیکھی اور دوزخ میں زقوم کا درخت دیکھا تو منکرین نے مذاق اڑایا اور کہا کہ دوزخ کی آگ میں سبز درخت کیسے ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 10 اسی لئے جب قرآن میں زقوم کا بیان ہوا تو ابوجہل نے کھجور اور مکھن منگوایا اور دونوں کو ملا کر کھانے لگا اور بولا ” یہ ہے زقوم“ اسی کو نوش جان کرو ہم اس کے علاوہ کسی زقوم کو نہیں جانتے۔ (ابن کثیر)