سورة الإسراء - آیت 23

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور آپ کے رب نے یہ فیصلہ (١٤) کردیا ہے کہ لوگو ! تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہاری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف نہ کہو اور انہیں ڈانٹو نہیں، اور ان کے ساتھ نرمی اور ادب و احترام کے ساتھ بات کرو۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 15 بظاہر خطاب تو آنحضرتﷺ کو ہے لیکن مراد آپ کی امت کو سمجھانا ہے کہ شرک معاف نہیں ہوگا اور ہر مشرک اللہ کے ہاں ذلیل و خوار ہوگا۔ ف 16 یعنی قطعی حکم دیا اور فیصلہ کردیا ہے۔ ف 17 یا اس کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہو۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم پوجا کا بھی ہے اور بندگی کا بھی۔ ف 1 ماں باپ چاہے بوڑھے ہوں یا جوان، ہر حال میں ان کا ادب کرنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا فرض اور انہیں جھڑکنا گناہ ہے۔ مگر چونکہ بڑھاپے میں خدمت کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے بلکہ بسا اوقات زیادہ بڑھاپے کی وجہ سے ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے اس لئے خاص طور پر بڑھاپے کا ذکر فرما یاگیا۔ ف 2 جو اکتاہٹ اور بے ادبی کا ہلکے سے ہلکا لفظ ہے۔ پھر اس سے زیادہ کوئی سخت لفظ بولنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ ف 3 سعید بن مسیب فرماتے ہیں : ان سے ایسے بات کر جیسے ایک خطا کار نوکر اپنے سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔ (معالم التنزیل)