الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
حج کے چند معلوم مہینے (282) ہیں، جس نے ان مہینوں میں اپنے اوپر حج کو فرض کرلیا وہ اثنائے حج جماع اور اس کے متعلقات، گناہ اور جنگ و جدال سے اجتناب کرے، اور تم جو نیکی بھی کرو گے اللہ سے جانتا ہے اور زاد راہ (283) (سفر کا خرچ) لے لیا کرو، بے شک سب سے اچھا زاد راہ سوال سے بچنا ہے، اور اے عقل والو، مجھ سے ڈرتے رہو۔
ف 4 اشھر معلومات کی یہی تشریح حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور دیگر صحابہ وتابعین سے مروی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج کا احرام بھی غرہ شوال سے پہلے نہ باندھا جائے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں من السنتہ ان لا یحرم باالحج الا فی اشھر الحج۔ کہ سنت یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں نہ باندھا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ کا یہ قول مرفوع حدیث کے حکم میں جسکی تائید حضرت جابر (رض) کی روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے مروی ہے اور یہی مسلک صحیح اور راحج ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر) مسئلہ۔ عمرہ تو سارے سال میں جب چاہے کرسکتا ہے مگر حج کے لیے یہ مہینے مقرر ہیں اور عشرہ ذی الحجہ میں اس کے مناسک اتمام پاتے ہیں اور یوم النحر کی رات گزرجانے کے بعد حج ختم ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) مسئلہ حج کا احرام تو مکہ کے اندر سے ہی باندھا جاسکتا ہے مگر عمرے کے احرام کے لیے باہر حل میں جانا ضروری ہے اور اس میں آفاقی اور مکی دونوں برابر ہیں ( متوطا) ف 5 حج کو اپنے اوپر لازم کر نایہ ہے کہ حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ لے اور زبان سے البیک کیے۔ ( اب کثیر) ف 6 یعنی حج میں یہ سب باتیں حرام ہیں۔ فث (شہوت کی باتوں) سے جماع اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کی طرف مائل کرنے والی ہوں اور فسوق کا لفظ ہر قسم کے گناہ کو شامل ہے کہ جس نے حج کیا اور اس میں رفث وفسق نہیں کیا تو وہ گنا ہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے ماں کے پیٹ سے پید ہونے کے وقت تھا۔ (ابن کثیر) ف 3 یہ معنی "التقوی کے لغوی معنی کی بنا پر ہیں۔ (روح المعانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اہل یمن حج کو نکلتے تو کوئی زاد راہ ساتھ نہ لیتے اور اپنے آپ کو متوکل کہتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی زاد راہ ساتھ نہ لینا اور اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالنا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بہترین زلو تقوی یعنی منھیات سے بچنا ہے۔ ابن جریر۔ ابن کثیر )