إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بیشک اس نے تم پر مردہ جانور اور خون اور خنزیر کا گوشت حرام (٧١) کردیا ہے اور ان تمام جانوروں کو حرام کردیا ہے جو غیر اللہ کے نام سے چھوڑے یا ذبح کیے گئے ہوں، پس جو شخص مجبور ہوجائے درآنحالیکہ وہ باغی اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو، تو بیشک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
ف 2 یعنی جس جانور کو بھی غیر اللہ کے نام سے شہرت دی جائے۔ مثلاًً شیخ سدو کا بکراہ یا سید احمد کبیر کی گائے یا فلاں شاہ کا مرغا وغیرہ۔ ہر حال میں وہ جانور حرام ہوگیا اور اھل کا لفظ ذبح کے علاوہ اس کو بھی شامل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ملعون من ذبح لغیر اللہ (سسن ابی دائود) لہٰذا جس پر غیر اللہ کا نام آگیا تو اس میں ایسی خباثت آ گئی جو مردار ہیں بھی نہیں کیونکہ مردار پر تو صرف اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ مگر ” اھل لغین اللہ ہمیں اس جانوروں کی روح اس کے خالق کے سوا دوسرے کے نام پر بھینٹ چڑھا دی گئی اور یہ شرک ہے لہٰذا ایسا ذبیحہ حرام ہے یہ آیت شریفہ قرآن میں چار متربہ آئی ہے۔ اس کے معنی مارفع بہ الصوت بغیر اللہ“ ہیں نہ کہ ” ماذبح باسم غیر اللہ“ گویہ اس میں بطریق اولیٰ داخل ہے جس کی بنا پر بعض مفسرین نے اھل کی تفسیر ” ذبح“ جو اس وقت کی صورت حال کے پیش نظر اور بیان واقعہ کے لئے ہے۔ ہمارے دور میں اس نئے شرک کا وقوع ہوا ہے اس لئے برصغیر پاک و ہند کے علما نے اسے خوب حل فرمایا ہے اور شاہ عبدلاعزیز کی تفسیر عزیزی اس پر شاہد عدل ہے (ترجمان نواب)