وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
اور ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا، تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا تو عذاب نے انہیں اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظلم کر رہے تھے۔
ف 9 غالباً اس آیت کو بنیاد بنا کر اکثر مفسرین نے اس بستی سے مراد مکہ معظمہ لیا ہے ورنہ اس کی تعیین کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اگر یہ صحیحی ہے تو جس عذاب یا بھوک اور خوف کے لباس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قحط ہے جس میں مکہ والے کئی برس تک مبتلا رہے ہیاں تک کہ وہ جلی ہوی ہڈیاں اور مردار جانور تک کھا گئے اور یہ قحط اس سے لئے واقع ہو کہ آنحضرت نے بد دعا فرمائی تھی کہ ااے اللہ ان لوگوں پر اپنی سختی نازل فرما اور ان پر قحط اور خشک سالی کی صورت میں ایسا ہی عذاب بھیج جیسا یوسف کے زمانہ میں آیا تھا بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی متعین بستی کا تذکرہ نہیں ہعے۔ محض ایک تباہ شدہ بستی کی مثال دے کر اہل مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہماری نعمتوں کی ناشکری کی تو تمہارے ساتھ یہی معاملہ کیا جائے گا۔ قاضی شوکانی نے اس دور سے رائے کو راجح قرار دیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ایسے بہت سے شہر ہوتے ہیں پر احوال فرمایا مکے کا۔