ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ ایک زر خرید غلام کی مثال (٤٦) بیان کرتا ہے جس کے پاس کوئی قدرت نہیں ہوتی اور ایک ایسے شخص کی جس کو ہم نے اپنی جانب سے اچھی کشادہ روزی دی ہے پس وہ اس میں سے پوشیدہ طور پر اور دکھا کر خرچ کرتا ہے، کیا یہ لوگ برابر ہوسکتے ہیں، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
ف 10 مگر اپنی بے وقوفی سے اللہ تعالیٰ کو دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ اللہ ان کی سفارش رد نہیں کرسکتا۔ یہ تمہاری بے عقلی اور بے سمجھی ہے۔ لہٰذا تم اللہ کے لئے اس قسم کی مثالیں بیان نہ کرو۔ اب آگے دو مثالیں بیان کی جاتی ہیں ان پر غور کرو۔ (وحیدی) ف 11 یعنی ایسا غلام ہے جو اپنے مالک کی اجازت کے بغیر ایک کوڑی بھی خرچ نہیں کرسکتا۔ ف 12 ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔ بس یہی مثال ہے بت اور اللہ تعالیٰ کی بلکہ بت اس غلام سے بھی کیا گزرا ہے کیونکہ وہ تو پھر بھی ہوش و حواس اور شعور رکھتا ہے اور اپنے نفس سے حتی الوسع دفاع کرسکتا ہے مگر یہ بے جان اور بے شعور بت کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ پھر کس قدر بے انصافی ہے کہ تم اسے خدائے زوا الجلال کے برابر شمار کرتے ہو جو ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر کامل اختیار اور قدرت رکھنے والا ہے۔ یہی مثال ایک کافر اور مومن کی بھی ہو سکتی ہے۔ کافر بتوں کا مملوک اور اپنے اوہام و خواہشات کا کان پکڑا غلام ہے۔ کیا وہ اس مومن کے برابر ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دولت سے نوازا ہے۔ (وحیدی) ف 1 ورنہ ہرگز خدا کو چھوڑ کر ان بتوں کی پوجا نہ کرتے۔