أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ
کیا انہوں نے ان چیزوں کو نہیں دیکھا ہے جنہیں اللہ نے پیدا کیا ہے جن کے سائے نہایت انکساری کے ساتھ سجدہ (٢٨) کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکے رہتے ہیں۔
ف 4 یعنی دنیا کی ہر چیز پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ۔ جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے۔ تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے سرموانحراف نہیں کرسکتی۔ یہاں جملہ اشیا پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ” دَٰخِرُونَ “ فرما یا ہے۔ (از روح) شاہ صاحب اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے۔ اس کا سایہ بھی کھڑا ہے۔ جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع اور رکوع سے سجدہ اس طرح ہر چیز اپنے سایہ سے نماز ادا کرتی ہے۔ (کذافی الموضح)