لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
حقیقت معنوں میں نیکی (255) یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ آدمی ایمان لائے اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، قرآن کریم پر، اور تمام انبیاء پر، اور اپنا محبوب مال خرچ کرے، رشتہ داروں پر، یتیموں پر، مسکینوں پر، مسافروں پر، مانگنے والوں پر، اور غلاموں کو آزاد کرانے پر، اور نماز قائم کرے، اور زکاۃ دے، اور جب کوئی عہد کرے تو اسے پورا کرے، اور دکھ اور مصیبت میں اور میدانِ کارزار میں صبر سے کام لے، یہی لوگ (اپنے قول وعمل میں) سچے (256) ہیں، اور یہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں
ف 2 ای لکن البر بؤ من امن) تحویل قبلہ کا حکم نازل ہو اتو یہ اہل کتاب اور بعض مسلمانوں پر بہت شاق گزرا۔ (ابن کثیر) اس میں بحث وجدال نے یہاں تک شدت اختیار کرلے کہ اس کو حق وباطل کا معیار سمجھا جانے لگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعال نے تحویل قبلہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی یہ ہے نہیں کہ تم مشرق ومغرب کی طرف اپنا رخ کرتے ہو۔ اصل مقصود اور اصل نیکی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کا ذکر فرمایا کہ ان پر عمل پیرا ہونا اصل نیکی اور تقوی۔ ہے (ابن کثیر۔ کبیر) دراصل یہ آیت جمیع انوع بر حاوی ہے اور اصول عقائد کے ساتھ اعمال واخلاق کے تمام بڑے شعبوں کا اس میں بیان ہے۔ ( البحر۔ المحیط) ایمان باللہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں آمد و صفات باری تعالیٰ کو بلاتا ویل مان کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا دل وزبان سے اقرار کیا جا وے اور لکتاب سے سب آسمانی کتابیں مراد ہیں جو انبیاء پر نازل کی گئیں۔ ان پر ایمان یہ بات خاص طور پر ضروری ہے معانی کے ساتھ ان کے الفاظ کے بھی منزل من اللہ سمجھا جائے۔ (دیکھئے سورت القیامہ آیت :18۔19) اور قرآن پاک کو اشرف الکتب اور آخری کتاب مانا جائے اور یہ کہ پہلی کتابوں کو مصداق اوان پر مہہین ہے۔ (المائد ہ۔ ایت 41) جملہ انبیاء کو بشر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث مانا جائے اور آنحضرت کو خاتم النبین تسلیم کیا جائے۔ ( دیکھئے الا حزاب آیت 40) صبر درحقیقت ایک جامع صفت ہے جو جملہ اخلاق پر حاوی ہے۔ (راغب) مگر الباساء (مالی اور معاشی پر یشانیاں) الضرء (بدنی امراض) اور حین الباس (جنگ کی حالت) ان تین حالتوں میں صبر نہایت مشکل اور دشوار ہوتا ہے اس لیے ان حالتوں کو خاص طور پر ذکر کردیا ہے۔ (ابن کثیر )