وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جب فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا (١٧) کہ اللہ نے تم سے پختہ وعدہ کیا تھا، اور میں نے بھی تم سے (جھوٹا) وعدہ کیا تھا جس کی آج میں تم سے خلاف ورزی کر رہا ہوں، اور میرا تم پر کوئی اختیار نہ تھا، میں نے تو تمہیں اپنی طرف بلایا تھا تو تم نے میری بات مان لی تھی اس لیے تم لوگ مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپکو ملامت کرو، میں تمہارے کام نہیں آسکتا اور نہ تم لوگ میرے کام آؤ گے، تم نے اس کے قبل (دنیا میں) مجھے جو اللہ کا شریک ٹھہرایا تھا تو آج میں اس کا انکار کرتا ہوں، بیشک ظالموں کو بڑا دردناک عذاب دیا جائے گا۔
ف 5۔ حضرت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، دوزخی پہلے رونے پیٹنے کی صلاح کریں گے چنانچہ وہ پانچ سو برس تک خوب روئیں پیٹیں گے لیکن جب دیکھیں گے کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا تو صبر کرنے کی صلاح کریں گے چنانچہ پانچ سو برس تک صبر کئے رہیں گے۔ پھر جب دیکھیں گے کہ اس سے بھئی کوئی فائدہ نہیں ہوا تو کہیں گے۔ سواء علینا اجر عنا اور صبرنا مالنا من محیص۔ (قرطبی)۔ ف 6۔ ان لوگوں کو جو اسے الزام دیں گے کہ تو ہی نے ہمیں آف میں پھنسایا۔ حسن (رح) سے مروی ہے کہ ابلیس قیامت کے دن جہنم میں آگے کے منبر پر کھڑا ہو کر یہ اعلان کرے گا اور تمام مخلوقات سن رہی ہوگی۔ (قرطبی)۔ ف 7۔ یعنی دوزخی دوزخ میں اور جتنی جنت میں جا چکے ہوں گے۔ (دیکھئے سورۃ مریم آیت 92)۔ ف 8۔ کہ آخرت آئے گی اور اس میں حساب کتاب ہوگا اور پھر نیک لوگوں کو نیک اور برے لوگوں کو برا بدلے ملے گا۔ (قرطبی)۔ ف 9۔ کہ آخرت و اُخرت کوئی چیز نہیں ہے اور نہ کوئی حساب و جزا ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، چند روز زندہ رہ کر فنا ہوجانا ہے اس لئے جتنا عیش کرنا ہے یہیں جی بھر کے کرلو۔ (وحیدی)۔ ف 10۔ یعنی وہ تو محض فریب کاری تھی جس کے پورا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابلیس (رض) بلند آواز سے یہ پکارے گا اور اس کی مجلس عفونت سے لبریز ہوگی (قرطبی)۔ ف 11۔ کہ میں نے تمہیں زبردستی کفر وشرک کے راستے پر لگا دیا ہو۔ ف 12۔ کہ بلا دلیل ہی میرے پیچھے چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جن کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت کی دلیل ہوتے ہوئے اس کے خلاف دوسری شخصیتوں کے اقوال و آراء کی پیروی کرتے ہیں کیا وہ بھی تو اس باطل کی پیروی نہیں کر رہے ہیں جس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔ اللھم غفرا۔ (شوکانی)۔ ف 13۔ اب نہ میں تمہارے کسی کام آسکتا ہوں اور نہ تم میرے کسی کام آسکتے ہو۔ (شوکانی)۔ ف 14۔ ظاہر ہے کہ شیطان کو اللہ کا شریک بنانا یہ نہیں ہے کہ اسے سجدہ کیا جائے اور معبود سمجھا جائے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسی کے طور طریق اختیار کئے جائیں۔