سورة الرعد - آیت 31

وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر کسی قرآن (٢٧) کے ذریعہ پہاڑوں کو چلا دیا جاتا، یا زمین کے ٹکڑے کردیئے جاتے یا مردوں کو گویائی دے دی جاتی (تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے) بلکہ تمام فیصلے (٢٨) صرف اللہ کے اختیار میں ہیں، کیا اہل ایمان یہ بات نہیں سمجھتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دیتا، وار اہل کفر (٢٩) پر ان کے کیے کی بدولت کوئی نہ کوئی مصیبت آتی رہے گی، یا ان کے گھروں کے قریب رہنے والوں پر کوئی آفت آتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آجائے گا، بیشک اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4۔ تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ اتنی عبارت مخدوف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے نبی ﷺ سے کہا اے محمد ﷺ اگر آپ ﷺ اپنے دعوائے نبوت میں سچے ہیں تو ہمارے اسلاف کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لاکھڑا کریں تاکہ ہم ان سے بات چیت کریں اور مکہ کے ان پہاڑوں کو جنہوں نے ہمیں بھینچ رکھا ہے ذرا سرکادیں تاکہ جگہ کھل جائے۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کا مطالبہ پورا ہوجائے۔ شاید ایمان لے آئیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر کسی قرآن سے یہ کام ہوئے ہوتے تو اس قرآن سے پہلے ہوجاتے۔ اس سے مقصد قرآن کی عظمت کو ظاہر کرنا ہے۔ (ابن کثیر۔ روح) ف 5۔ یعنی جن نشانیوں کا یہ لوگ مطالبہ کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قادر ہے کیونکہ اسے ہر چیز کا اختیا رہے مگر اس موقع پر ان نشانیوں کا دکھاتا بے سوہ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ یہ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ف 6۔ یا کیا ابھی تک مسلمان ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ ف 7۔ یعنی ہدایت تو مشئیت الٰہی پر موقوف ہے جو ان نشانات کے دکھائے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔ (۔۔۔) ف 8۔ یعنی یہ کفار مکہ نشانیوں کو دیکھ کر مان لینے والے نہیں ہیں۔ یہ مانیں گے تو اس طرح کہ ان کے کرتوتوں کی سزا میں آئے دن کوئی نہ کوئی آفت ان پر نازل ہوتی رہے جیسے قتل، قید، قحط یا بیماری وغیرہ۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : لیکن کافر مسلمان یوں ہوں گے کہ ان پر آفت پڑتی رہے گی ان پر پڑے یا ہمسایہ پر۔ جب تک سارے عرب ایمان میں آجائیں۔ یہی وہ آفت تھی جہاد مسلمانوں کے ہاتھ۔ (موضع) ف 9۔ یعنی وہ آفت ان کے آس پاس والوں پر اترے گی اور وہ ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ ف 10۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ قریش میں سے بعض لوگ مارے گئے بعض قید ہوئے یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا یعنی مکہ فتح ہوا۔