وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ
اور جو لوگ اپنے رب کی خوشی کی خاطر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کرتے ہیں اور برائی کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے آخرت کا گھر ہے۔
ف 2۔ یعنی ریاکاری یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ محض رضائے الٰہی کی طلب کے لئے۔ ” صبر کیا“۔ اور نیک اعمال پر ثابت قدمی دکھائی۔ ف 3۔ اگر ریاکاری کا اندیشہ نہ ہو تو پوشیدہ طور پر صدقہ دینا افضل ہے اور حدیث میں ” سرا“ صدقہ دینے والے کو ان لوگوں میں شمار کیا گیا ہے جن کو قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی۔ (روح)۔ ف 4۔ یعنی کوئی ان پر کتنا ہی ظلم کرے وہ اس کے جواب میں عدل و انصاف ہی کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : تم اپنے عمل کو لوگوں کے تابع نہ بنائو اور یوں نہ کہو : اگر وہ ہم سے بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ اس طریقہ پر کاربند ہوجائو کہ اگر لوگ بھلائی کریں، تب تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تب بھی تم ظلم و زیادتی نہ کرو یا اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نیک عمل کرکے برے عمل کو مٹادیتے ہیں جیسے فرمایا : ان الحسنات یذھبن السیات۔ کہ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اذ عملت سیئۃ اعمل بعجبھا حسنہ لمعھا السر بالسرا والعلابۃ بالعلانیۃ۔ جب تم کوئی برا کام کرو تو اس کے بعد نیک کام کرو وہ اسے مٹا دے گا، پوشیدہ گناہ کو پوشیدہ نیکی سے اور ظاہری گناہ کو ظاہری نیکی سے مٹائو۔ (معالم، روح)۔