لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
صرف اسی کو پکارنا حق ہے (١٤) اور جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ ان کی کوئی حاجت پوری نہیں کرتے ہیں، ان کی حالت اس آدمی کی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے، تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، حالانکہ وہ کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا، اور کافروں کا اپنے معبودوں کو پکارنا رائیگاں ہی جاتا ہے۔
ف 6۔ یعنی اپنی حاجتیں اور مرادیں پوری کرانے کے لئے اسی کو پکارنا برحق ہے۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی سنتا اور اسے پورا کرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ ف 7۔ جس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر جن کو پکارتے ہیں۔ بعض خیال ہیں اور بعض جن ہیں اور بعض چیزیں ہیں کہ ان میں کچھ خواص ہیں لیکن اپنے خواص کے مالک نہیں پھر کیا حاسل ان کا پکارنا؟ جیسے آگ یا پانی اور شاید ستارے بھی اسی قسم میں ہوں یہ اس کی مثال فرمائی۔ (موضح)۔