اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ایسے ستونوں (٢) کے جنہیں تم دیکھ سکو، اوپر اٹھایا، پھر عرش مستوی پر مستوی ہوگیا، اور آفتاب و ماہتاب کو ڈیوٹی کا پابند بنا دیا، دونوں ایک معین مدت کے لیے چلتے رہتے ہیں، وہی تمام معاملات کا انتظام کرتا ہے، اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔
ف 3۔ یعنی تم ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہو کہ ان میں کوئی ستون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مھض اپنی قدرت اور امر سے انہیں تھام رکھا ہے جیساکہ دوسری آیت میں ہے : ویمسک السماء ان نفع علی االرض الا باذنہ۔ اور وہ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے روکے ہوئے ہیں مگر اس کی اجازت سے۔ (حج :56) اس صورت میں ” ترونھا“ میں ھا ضمیر کا مرجع سمٰوٰت ہوں گے اور یہ جملہ مستانفہ ہوگا یا حال مقدرہ۔ اور اگر اسے عمد (ستونوں) کے لئے قرار دیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا“ بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظرآئیں“۔ مطلب یہ ہے کہ ستون تو ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے علمائے تفسیر نے آیت کے دونوں مفہوم بیان کئے ہیں واللہ اعلم (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 4۔ یعنی قیامت تک یا اپنا دورہ مکمل کرنے تک واضح رہے کہ سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے۔ قرآن نے جن حقائق کو ضمنی طور پر ذکر کیا ہے موجودہ سائنسی تحقیقات پر ان کو نہیں پرکھ سکتے۔ سائنسی نظریات میں تو آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور قرآن و صحیح حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ غیر متبدل اور لاریب فیہ ہے۔ ف 5۔ یعنی تم یہ سمجھ لو کہ جس خدا نے ایسی عظیم الشان مخلوقات کو پیدا کیا، اس کے لئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟