وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
اور اپنے والدین کو شاہی تخت پر جگہ (٨٦) دی اور سبھوں نے ان کو سجدہ کیا، یوسف نے کہا، اے ابا ! میرے گزشتہ خواب کی یہی تعبیر ہے، اللہ نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور مجھ پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ مجھے جیل سے نکالا، اور آپ سب کو بادیہ سے یہاں پہنچایا، اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کردیا تھا، بیشک میرا رب جو چاہتا ہے اس کی نہایت اچھی تدبیر کرتا ہے، بیشک وہ بڑا جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔
ف 1۔ یہ بات ان کی شریعت میں جائز تھی کہ جب کسی بڑے آدمی کو سلام کریں تو اسے سجدہ بھی کریں۔ یہ رواج حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک جاری رہا پھر ہماری شریعت میں اسے حرام قرار دے دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ (رض) نے شام سے واپس آکر نبی ﷺ کو سجدہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا :” معاذ (رض) ! کہ کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگے میں نے شام میں دیکھا کہ لوگ اپنے پادریوں کو سجدہ کرتے ہیں تو آپﷺ زیادہ حقدار ہیں کہ آپﷺ کو سجدہ کیا جائے۔ آپﷺ نے فرمایا : اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی (رض) نے جو ابھی حال ہی میں اسلام لائے تھے نبی ﷺ کو سجدہ کرکے سلام کیا۔ آپﷺ نے فرمایا ! اے سلمان (رض) مجھے سجدہ نہ کرو بلکہ اس زندہ ذات کو سجدہ کرو جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (ابن کثیر) موضح میں ہے : پہلے وقت میں سجدہ تعظیمی تھا۔ فرشتوں نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کیا ہے۔ اس وقت اللہ نے وہ رواج موقوف کیا ہے۔ ” وان المساجد للہ (الایۃ )۔ اس وقت پہلے رواج پر چلنا ویسا ہے کہ کوئی اپنی بہن سینکاح کرے کہ حضرت آدمی ( علیہ السلام) کے وقت ہو اہے۔ (موضح) ف 2۔ یہ بعض مفسرین (رح) کا خیال ہے بعض نے اسی تک بھی کہا ہے۔ تفاسیر میں دیگر اقوال بھی منقول ہیں۔ (دیکھئے ابن کثیر)۔ ف 3۔ جو اللہ کے احسان تھے سو ذکر کئے اور جو تکلیف تھی دخل شیطان سے ان کو منہ پر نہ لائے مجمل سنا دیا۔ (موضح)۔