قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
انہوں نے کہا، اگر اس نے چوری کی ہے تو اس کے پہلے اس کے ایک بھائی نے بھی چوری (٦٥) کی تھی، یوسف نے ان کی اس کذب بیانی کو اپنے دل میں ہی چھپائے رکھا اور اس کا اثر اپنے اوپر ظاہر نہیں ہونے دیا، اور دل میں کہا، تم کتنے برے لوگ ہو اور جو جھوٹ تم بول رہے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
ف 5۔ یہ اشارہ حضرت یوسف کی طرف تھا۔ پہلے کہہ چکے کہ ہم چور نہیں ہے لیکن اب جو دیکھا کہ بنامین کے پاس چوری کا مال نکل آیا ہے تو اپنی خفت مٹانے اور اپنی پاکبازی ظاہر کرنے کے لئے فوراً اپنے آپ کو بنیامین سے الگ کرلیا اور اس کے جرم کو بہانہ بنا کر اس کے بھائی پر بھی چوری کی جھوٹی تہمت لگا دی۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے گم ہوجانے کے بعد بنیامین کے ساتھ یہ بھائی کیا سلوک کرتے رہے ہونگے۔ ف 6۔ کیونکہ اگر ظاہر کرتے تو وہ سمجھ لیتے کہ یہی یوسف ( علیہ السلام) ہے اور ابھی یہ راز کھولنے کا وقت نہ آیا تھا۔ ف 7۔ یعنی یوسف ( علیہ السلام) نے چوریکی ہو یا نہ کی ہو مگر تمہارے چور ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ تم نے اسے باپ سے چرا کو کنویں میں پھینک دیا۔ اس پر غضب یہ کہ اُ (رح) ٹا اپنے آپ کو پاکباز اور یوسف ( علیہ السلام) کو جھوٹا بتاتے ہو۔ ف 8۔ یعنی تم جو یوسف ( علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگا رہے ہو اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ خوب جانت اہے۔ تم جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دے سکتے ہو مگر اللہ تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔