سورة یوسف - آیت 67

وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

اور یعقوب نے کہا، میرے بیٹو ! تم سب ایک دروازے سے نہ داخل ہونا (٥٩)، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا، اور اللہ کی طرف سے کسی مقدر حکم کو میں تم سے نہیں ٹال سکتا ہوں، ہر حکم اور فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7۔ نہ تو آیت کے الفاظ میں اس چیز کی تصریح ہے اور نہ کسی صحیح حدیث ہی سے اس کا پتا چلتا ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم کیوں دیا کہ وہ ایک دروازے سے نہیں بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہوں۔ البتہ حضرت ابن عباس (رض)اور دوسرے اكثر مفسرین(رح)كا خیال هے كه حضرت یعقوب نے یہ حکم اس لئے دیا کہ انہیں نظر بد نہ لگ جائے حضرت شاہ صاحب (رح) بھی لکھتے ہیں، یہ ٹوک (نظر بد) سے بچائو کا طریقہ بتایا اور توکل اللہ پر کیا۔ ٹوک لگنی غلط نہیں اور نظر بد سے بچائو کرنا درست ہے۔ (اھ) صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔( الْعَيْنُ ‌حَقٌّ)۔ یعنی نظر بد کالگ جانا ایک حقیقت ہے۔ عہد نبوی میں بہت سے لوگوں کو نظر بد سے نقصان کو پہنچنا ثابت ہے۔ ایک حدیث میں نظر بد کی شدت تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :( لَوْ كَانَ شَيْءٌ ‌سَابِقُ ‌الْقَدَرِ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ)۔ اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرسکتی تو نظر بدسبقت لے جاتی۔ (شوکانی۔ روح)۔ ف 8۔ بلکہ اس نے جو کچھ تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ہوكر رهے گا مگر چونكه آدمی كا فرض هےكه كهاں تك ممكن هو خرابی سے بچنے کی تدبیر کرے۔ اگرچہ اصل بھروسا تدبیر پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت پر ہونا چاہیے کیونکہ اسباب کی تاثیر بھی اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف ہے۔ پس تدبیر در اصل اللہ تعالیٰ سے اسی کی طرف فرار کو دوسرا نام ہے۔ (کذافی الروح)۔ ف 9۔ یعنی میری طرح تم بھی اسی پر بھروسا کرو اور اپنی تدبیر پر غرور نہ کرو۔