سورة البقرة - آیت 159

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے (235) ہیں، اس کے باوجود کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے کتاب میں بیان کرچکے ہیں، ان پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2: یعنی ایسا کرنے والا ملعون ہے۔ ﴿الْبَيِّنَاتِ سے مراد واضح دلائل اور الہدی سے احکام شریعت مراد ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ دونوں سے ایک ہی مراد ہے۔ یہ آیت گو یہود کے حق میں نازل ہوئی ہے جو توریت میں ذکر کئے ہوئے آنحضرت (ﷺ) کے اوصاف اور شریعت کی بیان کردہ حدود کو چھپاتے تھے لیکن اس میں ہر شخص کے لیے وعید ہے جو حق کو جانتے ہوئے کسی دنیوی مفاد کے لیے اسے چھپائے رکھتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ( مَن سُئِلَ عن عِلمٍ فكَتَمَه أُلجِمَ بلِجامٍ من نارٍ )کہ جس شخص سے کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا اور اس نے اسے جاتنے بو جھتے چھپا یا قیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔ (ابن کثیر) اگر کسی کو مسئلہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہو اور عوام میں فتنہ کا خوف ہو تو البتہ اسے عوام کے سامنے بیان نہیں كرنا چاہئے۔(قرطبی)